ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے
یومِ سسرال پہ انکار کہاں ممکن ہے
میکے تو آج نہیں کل نہیں پرسوں جانا
بیوی کے آگے یہ تکرار کہاں ممکن ہے
بیویوں والے تو جاتے ہیں عقیدت لے کر
چھوڑ کے جائیں یہ دربار کہاں ممکن ہے
عید کے عید بُلائیں نہ بُلائیں لیکن
تم نہ جاؤ یہ مِرے یار کہاں ممکن ہے
مجھ کو بیگم کی کزن پیاری لگی ہے لیکن
سامنے اس کے یہ اقرار کہاں ممکن ہے
ہوں وفادار ہمیشہ سے سگی بیگم کا
کوئی اور ہو مِری حقدار کہاں ممکن ہے
اپنے سسرال سے گو اندھی عقیدت ہے مجھے
ان کے کتوں سے بھی ہو پیار کہاں ممکن ہے